چھینی ہوئی تاریخ

ہم براہ راست حملے میں بچ گئے
اور اب چن چن کر ماردیے جانے کی کاروائی کے دوران
جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں

ابھی ہم اتنے اہم نہیں ہوئے
کہ کسی حساس اسلحہ پر ہمارے دل کی نشاندہی کرکے
ایک منجمد موت ہمارے پیچھے لگا دی جائے

ہم کیوں بچ جاتے ہیں 
ماہرین کا پینل
ایک پُررونق شہر کے سب سے اعلیٰ ہوٹل میں
ایک سیمینار کر ر ہا ہے

شاید یہ نظریہ تسلیم کرلیا جائے
کہ ہم میں دوہری مزاحمت پیدا ہوگئی 
بلد کے کسی بھی طول و عرض پر
ہم جیسے کسی بھی آدمی کو مار دیا جاتا ہے
تو ہماری زندہ رہنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے 

ہم نے کسی سفارت خانے میں پناہ نہیں لی
اور نہ کسی گرتے ہوئے جھنڈے کےنیچے
یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
کہ ہمارے دونوں ہاتھ خالی ہیں

ہم نے کسی حادثے پر 
کسی بیمے والے سے کوئی امداد نہیں لی
موت اور دیگر مراعات
ہماری تنخواہوں میں شامل ہیں

ہمیں ایک اعلان نامے میں لپیٹ کر
ہمارے قاتلوں کی بندوق کی نال میں ٹھونس دیا گیا
ہمارے پرستار
کبھی نہ ڈوبنے والے جہاز میں بیٹھ کر
پرُسکون سمندر میں 
آب و ہوا اور ہماری تقدیر کی تبدیلی کے لیے چلے گئے

ابھی ہم مارے بھی نہیں گئے تھے
کہ تجزیاتی تجربہ گاہ سے ہماری تجزیاتی رپورٹ آگئی
اور پتا چلا لیا گیا 
کہ ہم میں زندگی نام کا کوئی جزو نہیں تھا
ہم میں کسی چیز کا بھی کوئی جزو نہیں تھا
ہم تھے ہی نہیں

شاید ہمیں مارا نہیں گیا
قسط وار تحلیل کے مضبوط اصول کے تحت 
ختم کردیا گیا

یہ یاد رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے 
کہ ہم زندہ رہے تھے

اگر تاریخ اسلحہ کا ایک بروشر ہے 
تو شاید 
ہم کبھی نہیں تھے

شاید ہم اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے 
جس کا نام تبدیل ہوگیا

شاید ہم ان مکانوں میں نہیں رہے
جن کا کرایہ دینے کے لیے 
ہمارے والدین کو 
اور پھر ہمیں
ایک وقت کا کھانا نظر انداز کرنا پڑا
شاید ہم نے ان اداروں میں تعلیم نہیں پائی
جو مخیر افراد کی روحوں کو ثواب پہنچانے کے لیے چلائے گئے

شاید میں نے
کبھی کسی پر پیچ مشین کو نہیں چلایا

شاید تم نے
کبھی پٹ مین سے شارٹ ہینڈ نہیں سیکھی

شاید میں تم سے کبھی نہیں ملا

شایدہم نے وہ نظمیں نہیں لکھیں
جن کے شور کے باعث
اراکین جیوری کا فیصلہ نہیں سنا جاسکا

شاید ہم وہ تحفے نہیں خرید سکے
جن کے نہ خریدے جانے کی وجہ سے 
ہمارے تہوار ملتوی ہوتے رہے

شاید 
ہم نے زندگی کو ملتوی کردیا 
اورمارے گئے
ہم ان کتوں کے بھونکنے سے مرگئے
جنہوں نے کبھی ہماری بو نہیں سونگھی

شاید ہمیں 
ہر بلٹ
ہر بینٹ
ہر ٹھوکر سے مارا جانا تھا

ہمیں تمام قید خانوں کی 
تمام کوٹھڑیوں میں 
ایک ایک عمر قید گزارنی تھی

زندگی 
اور ہمارے درمیان 
فاصلہ کردیا گیا
اور ہمیں بتایا گیا 
ہم اسی فاصلے کے باشندے ہیں

شاید جب ہم سمندر میں تیرتے تھے
یا نارنگیاں توڑتے تھے 
یا بینچ پر بیٹھ جاتے تھے
تو ہم زندگی سے جڑے ہوئے تھے
ایک دوسرے کا بہت طویل بوسہ لیتے ہوئے
شاید ہم بہت زیادہ زندہ تھے

شاید تم
بے اندازہ خوبصورت تھیں
اور میں
بے حد بے خوف

ریت کی چاربوریوں کی آڑ
اورایک چھینی ہوئی تاریخ
ہمیں زندہ رکھنے کے لیے 
بہت کم تھی

© Afzal Ahmed Syed
Producción de Audio: Goethe Institut, 2015