Ali Akbar Natiq (ਅਲੀ ਅਕਬਰ ਨਾਤਿਕ)
مرے چراغ بجھ گئے
مرے چراغ بجھ گئے
میں تیرگی سے روشنی کی بھیک مانگتا رہا
ہوائیں ساز باز کررہی تھیں جن دنوں سیاہ رات سے
انہی سیاہ ساعتوں میں سانحہ ہوا
تمام آئینے غبارسے بے نور ہوگئے
سرا کے چار سمت ہولناک شب کی خامشی
چمکتی آنکھ وائے بھیڑوں کے غول لے کے آگئی
قبائے زندگی وہ پھاڑ لے گئے نکیلے ناخنوں سے اس طرح
کہ روح چیتھڑوں میں بٹ گئی
خراب موسموں کی چال تھی کہ آس پاس بانبیوں سے
آگئے نکل کے سانپ جھومتے ہوئے
بجھا دیا سفید روشنی کا دل
مدد کو میں پکارتا تھا اور دیکھتی تھیں پتلیاں تماشا غور سے
مگر نہ آئیں بین لے کے امن والی بستیوں سے جوگیوں کی ٹولیاں
سیاہ آندھیوں کا زور کب تلک سہارتے
مرے چراغ بجھ گئے